Get here

Tuesday 10 July 2018

•••••••••پاکستان کی سیاست••••••••••


سیاست اکھاڑ پچھاڑ کا نام ہے یہ گندے پانی کا وہ صاف تالاب ہے اس میں جو بھی پاؤں رکھتا ہے اپنا منہ بھی کالا کروا لیتا ہے.خاص طور پر وہ ہی لوگ سیاست میں کتوں کی طرح بدنام ہوتے ہیں جو اسکو مذہب اور عبادت سمجھ کر اس میں آتے ہیں. پاکستان کی سیاست میں فوج کا وہ ہی کردار رہا ہے جو ایک سیاستدان کا سیاست میں ہوتا ہے. ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف کے دس سالہ اقتدار تک اس ملک نے سب کچھ کھویا ہی ہے پایا کچھ بھی نہیں. اس ملک نے اپنی دولت کھوئ اپنی عزت کھوئ اپنا بازو آدھا وجود کھویا اور ابھی پتہ نہیں کیا کچھ دیکھنا باقی ہے. اس ملک میں کوئ بھی سیاستدان آج تک سیدھے رستے سے سیاست میں نہیں آیا تو وہ سیدھا کام کیا کرے گا. دیوار پھلانگ کے گھر میں گھر میں گھسنے والے سے کیا یہ توقع کی جائے کہ وہ گھر کی دیواریں اونچی کرنے آیا ہے یا پھر بجلی ٹھیک کرنے آیا ہے. پاکستانی سیاست میں سب ہی سیاستدان شارٹ کٹ کی پیداوار ہیں. دروازے سے کوئ بھی سیاست میں نہیں آیا. کوئ کسی جرنیل کے سہارے تو کوئ کسی ایجنسی کے سہارے. زلفقار بھٹو سے لے کر نواز شریف عمران خان تک سب ہی دیوار پھلانگ کے سیاست میں داخل ہوئے. اور مزے کی بات یہ کہ جن لوگوں کے کندھے پر پاؤں رکھ کر دیوار پھلانگے انہی لوگوں نے اپنا فائدہ اٹھانے کے بعد گھر کا دروازے بجا کے مکینوں سے کہا آپکے گھر کوئ چور آیا ہے. بےنظیر اور نواز شریف کا معاملے اس حوالے سے خاصہ پیچیدہ ہے.زلفقار علی بھٹو کو فوج نے تختہ دار پر چڑھا دیا تو باقی مخالفین بہت خوش ہوئے.کسی بھی انسان کے باپ کو کوئ بھی مار دے تو بدلے کی آگ دل میں ضرور بھڑکتی ہے. یہ ایک فطری عمل ہے اور سب کے ساتھی ہی ایسا ہوتا ہے. اپنے باپ کے قتل کےبعد کے بے نظیر کے دل میں فوج کے سیاسی ونگ کے خلاف جو بدلے کی آگ دل میں بھڑکی وہ بے نظیر صاحبہ خود ہی بتا سکتی تھیں. بہر حال ان دنوں نواز شریف کے فوج سے تعلقات خاصے مظبوط تھے اور انکا وہ ہی کردار تھا جو آج 2018 میں عمران خان کا ہے. بے نظیر نے فوج کے سیاسی ونگ کے احتساب کیلیے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر نواز شریف کے ہوتے ہوئے سب ناسود رہا. آپ فوج کے سیاسی ونگ کو اسٹیبلشمنٹ کا نام بھی دے سکتے ہیں. بے نظیر صاحبہ چاہتی تھیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایسا احتساب ہو پھر دوبارہ کو اس ملک پر شب خون نا مار سکے. خیر گھوڑوں کی اس جنگ میں نواز شریف وہ گھوڑا تھا جو ہر بار جھٹکا مار کے بے نظیر کو نیچے گرا دیتا تھا مگر پھر وہ ہوا جس کا کوئ شاید صدیوں تک بھی سوچ نا سکتا تھا. مشرف نے نواز شریف کو وہ ہی زخم دیا جو بے نظیر کو ضیاء الحق نے دیا تھا. خیر مشرف سےملی جلا وطنی نے نواز شریف کو بھی فوجی سیاسی ونگ کے احتساب کا قائل کر دیا. یہ دونوں سیاستدان میدان چھوڑ کر دور کھڑے مشرف کے گھوڑے کے تھکنے کا انتظار کرتے رہے. ہر عروج کو زوال ہوتا ہے مشرف کا زوال انکے کیلیے گولڈن موقع ثابت ہوا اور دونوں اک پیج پر اکٹھے ہو گئے. دونوں کا مشن یہ ہی تھا کہ ایسا احتساب کیا جائے کہ آئیندہ کوئ جمہوریت پر شب خون نا مار سکے.یہ بات اپنے زہن میں بٹھا لیں کے موجودہ آئین کے ہوتے ہوئے اس ملک کے لیے جمہوریت اتنی ہی ضروری ہے جتنا مچھلی کیلیے پانی.اگر آپ کو سیاست سے اتنی تکلیف ہے آپکو سیاستدانوں سے اتنی نفرت ہے تو خدارا اس ملک کے آئین کا اس دنیا میں مذاق مت بنائیے.ہمت کی جیے آیین بدلیے آئین کی وہ سب شقیں مٹائیے جو جمہوریت کو فروغ دیتی ہیں اور یہ ملک پھر فوج کے یا کسی کے بھی حوالے کر دیجیے. خدا قسم کسی کو کوئ اعتراض نا ہوگا. بہرحال نواز شریف اور بی بی نے مشترکہ منصوبے پر کام شروع کیا اور ملک واپسی کا فیصلہ کیا. اسٹیبلیشمنٹ کیلیے یہ بات خطرے سے خالی نا تھی. وہ سب حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے جو کسی نا کسی طرح اس گھناؤنے کھیل میں ملوس تھے. پھر یہ طے کیا گیا دونوں سیاستدانوں میں سے ایسے سیاستدان کو نشانہ بنایا جائے جسکے وارث ہمارے ہاتھوں میں کھیل سکیں اور ری ایکشن کم سے کم آیے. بے نظیر صاحبہ کو شہید کر دیا گیا اور بی بی کی وصیت کے برعکس زرداری کو شریک چئیر مین بنا دیا گیا. یہ وہ مہرا تھا جو اپنے مفاد کیلیے کسی بھی طرف چل سکتا تھا. کچھ بھی کر سکتا تھا.اس مہرے نے جی حضوری کر کے پانچ سال گزارے بیوی کے خون کا سودا کیا اور اپنا مفاد حاصل کیا. وہ بھی ایسے کوئ آج تک اس پے انگلی نا اٹھا سکا. بدترین حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے نواز شریف کو اقتدار ملا تو انہوں نے اپنا من پسند جرنیل لگیا. کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ میاں صاحب کے دل میں وہ آگ اب بھی بھڑک رہی ہے سب یہ ہی سمجھتے تھے کہ بے نظیر کت بعد شاید میاں صاحب کی سوچ میں تبدیلی آگی ہو. مگر نواز شریف نے اپنے جرنیل راحیل شریف کے زریعے فوج کے سیاسی گروہ کا احتساب کیا. بہت سے بڑے بڑے افسروں کا کورٹ مارشل ہو اور اسٹیبلشمنٹ کے پسینے چھوٹ گئے. راحیل شریف کے خلاف بھی کافی نفرت پیدا ہونے لگی. راحیل شریف کی اکیسٹینشن کی اندرونی طور ہر بھرہور مخالفت کی گئ اور الزام بھی لگائے گئے راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد سیدھا سعودیہ چلے گے اور مسلمان ممالک کی متحدہ. فوج جوائیں کرلی.اور یہاں سے پھر میاں صاحب کی الٹی گنتی شروع ہوئ جو ابھی تک چل رہی ہے

No comments:

Post a Comment