Get here

Wednesday 6 September 2017

جنگ ابھی باقی ہے

چنددن قبل بی بی سی خبروں کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں پاکستانی اور ہندوستانی بچوں کے تاریخ کے علم کا مقابلہ ہو رہا تھا بہارتی بچوں کو پہلے سے ہی مکمل طور پر تیار کیا گیا تھا جب پاکستانی کی طرف شمائلہ جعفری نے ایسی کوئ زحمت گوارا نہیں کی گھما پھرا کے چند سوال پاکستانیوں سے کیے گئے اور کئ پیچیدا موضوعات پر پھسانے کی کوشش کی گئ جن کے جوابات نہایت ہی آسان ہیں اگر ذرہ کھل کے اور تسلی سے بات کی جائے۔ دو قومی نظریہ سے تو ہم اچھی طرح ہی واقف ہیں اور بچہ اور بچہ اسکی تعریف بیان کرتا نظر آتا ہے مگر دو قومی نظریہ سے پہلے جو تاریخ تھی اس سے ہم تقریباً مکمل طرح ہی ناواقف ہیں اور ہمیں تو محمد علی جناح کے چودہ نکات بھی یاد نہیں رہتے جن کی منسوخی اس دو قومی نظریہ کی بنیاد بنی۔ قائد اعظم روز اول سے ہی مسلم ہندو تفرقہ کے قائل نا تھے اور درحقیقت انہوں نے سیاست میں قدم رکھتے وقت کانگرس کا انتخاب کیا تھا مگر ہندوستان میں ہندوؤں کی اجارہ داری اور مسلمانوں سے ہوتی ہوئ ذیادتیاں دیکھ کر انکا ذہن بدلنا شروع ہو گیا تھا ۔ نہرو رپورٹ میں جس قدر تعصب اور تفرقہ کا مظاہرہ کیا گیا دراصل وہ ہی آگے جا کے دو قومی نظریہ کی بنیاد بنا۔ دوقومی نظریہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ضرورت اور ہندوستان کے ہندؤوں کی ایجاد تھی۔ اگر مجھ کے اب دو قومی نظریہ کی بابت سوال کیا جائے تو جی ہاں میں دوقومی نظریہ کا سخت حامی ہوں میں ہی کیا پورے پاکستان کی اک اک پاکستانی اور ہندوستان کا مسلمان بھی اس نظریہ کا قائل ہے۔ مسلمان اور ہندو الگ الگ قوم تھے ہیں اور رہیں گے ہر لحاظ سے چاہے وہ بات ثقافت کی ہو مذہبی فرائض کی ہو یا رہن سہن کی۔ اب جو ایک سوال پوچھا جاتاہے کہ دو قومی نظریہ ناکام رہا یا بہت سے مسلمانوں نے اسے مسترد کر دیا تو جناب والا یہ تاثر سرا سر غلط اور بے بنیاد ہے 70 سال قبل دوقومی نظریہ کو ہوا بھر کے اسے آندھی سے سونامی بنانے والے لوگ اب کس منہ سے یہ کہتے ہیں کہ دوقومی نظریہ کچھ نہیں۔ دوقومیں بنانے والے لوگ ہی وہی ہیں ۔ جہاں تک یہ منتق پیش کی جاتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی پاکستان سے بھی ذیادہ ہے تو میرے بھائ جب ہندوستان اور پاکستان دوقومی نظریہ کی بنیاد پر الگ الگ ہوئے تھے اس وقت کیا آبادی تھی کیا بنگلہ دیش نے دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوؤں سے آذادی حاصل نہیں کی تھی آپ کچھ بھی کر لیں چاہے بہارتی فوج بنگلہ دیش بھیج دیں چاہے اپنی اسٹیبلشمنٹ بنا لیں مگر بنگالی مسلمانوں کی دل آج بھی پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ کے دھڑکتے ہیں۔ بنگال کے مغربی پاکستان کے ساتھ زمینی اور آبی سرحد کی غیر موجودگی میں اسکا پاکستان کے ساتھ انضمام ایک غلطی ہی تھی جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا ہی پڑا اگر اسے آذادی کے وقت ہی ایک خودمختار یونٹ قرار دے دیا جاتا تو آج حالات قدرے بہتر ہوتے بنگال سے زمینی رابطہ کی کمی ہی علیحدگی کی وجہ بنی اور زمینی رابطے کی کمی بھی ایسی کے درمیان میں ایک ہندوستان جیسا ملک ہی آتا ہو۔ یہ بھی ایک ہندو بنیے کی ہی شازش تھی۔ بہارت میں مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کے پیچھے جو لوگ منہ کھول کے دو قومی نظریہ کی ناکامی وجہ بتاتے ہیں ان کے پاس کم عقلی اور بیواقوفی کے سوا کچھ نہیں جہاں تقسیم کے وقت مسلمانوں پر انسانیت سوز ظلم ڈھائے گئے دو سال کے فسادات میں سات لاکھ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے وہیں زمینی معاشی اور سیاسی ذیادتیاں اور ظلم ستم کسی سے ڈھکا چھپا نہیں متعدد مسلم اکثریت والے علاقوں پر ہندوستان نے طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کر لیا اور مزے کی بات یہ ان ریاستوں کو بھی دوقومی نظریہ کی ناکامی کا ثمر تصور کیاجاتا ہے ستر سال سے ہندوستان میں مسلم کش فسادات گائے کی قربانی کی جنگ سے لے کر بابری مسجد کی شہادت تک کو دوقومی نظریہ کی ثبوت کیوں نہیں کہا جاتا ہندوستانی تو کشمیر کی آبادی کو بھی اپنی ملکیت گردانتے ہیں پتہ نہیں کس قوائد اور کس قانون کے تحت۔ کشمیر کے مسئلہ کا ستر سال بعد بھی زندہ رہنا دو قومی نظریہ کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ آپ دوقومی نظریہ کو ناکام ثابت کرنے کی چنٹ مثالیں ڈھونڈنے میں دن رات لگا دیتے ہیں کبھی چند لمحے نکال کے دوقومی نظریے کے حق میں سوچیں تو کتابوں کے انبار لگ جائیں۔ 200 سو ذائد زبانیں اور 150 سے ذائد زاتیں ایک خطہ پر 70 سال سے اکٹھی رہ رہی ہوں تو یہ اعزاز دو قومی نظریہ کو ہی جاتا ہے یہ اعزاز اس دین اسلام کو ہی جاتا ہے جس سے ہم دوری اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اگر یہ پڑھنے کے باوجودبھی کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ آبادی کے تناسب میں گڑبڑ دوقومی نظریہ کی ناکامی کا ثبوت ہے تو بھائ ابھی دوقومی نظریہ کا منصوبہ ہی کہاں پورا ہوا ہے ابھی سے کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ نا کریں کیوں کہ آبادی کے تناسب میں توازن تک یہ جنگ ابھی باقی ہے۔